حوزہ نیوز ایجنسی| حالات کی تبدیلی فطرت کا قانون ہے، اگر رات ہے تو دن بھی ہو گا، اندھیرا ہے تو اجالا بھی ہو گا، غم ہے تو خوشی بھی ملے گی، مصیبت ہے تو مسرت بھی نصیب ہو گی، دشمنی ہے تو دوستی بھی ہو گی دوستی نہ صحیح زمانے کے ساتھ دشمنی ضرور ختم ہو جاتی ہے۔ ہم نے دنیا میں دیکھا کہ بڑی سے بڑی دشمنی و عداوت مرور زمان سے ختم اگر نہ بھی ہو تو اسکی شدت ضرور کم پڑ جاتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں کہ جن سے زندگی بھر دشمنی رہی لیکن جہاں موت کے فرشتہ نے دعوت دی تو مخالف نے بھی اپنی شمشیر نیام میں رکھ لی۔
لیکن کائنات میں واحد و بے نظیر مقدس ذوات اہلبیت اطہار علیھم السلام ہیں کہ جنکی محبت میں جہاں چودہ سو برس سے چاہنے والوں، محبت کرنے والوں پر محبت کے جرم میں ظلم و ستم ہو رہا ہے، انکے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے لیکن کبھی نہ انکی محبت کم ہوی اور نہ کبھی انکے پاے ثبات میں لغزش آئی اور نہ ہی کبھی انکو پچھتاوا ہوا، اسی طرح آل محمد علیھم السلام کی مظلومیت بھی بے نظیر ہے کہ جب تک وہ اس دیار فانی میں رہے تب بھی دشمنوں نے جتنی ممکن تھی دشمنی کی اور جب زہر دغا یا تیغ جفا سے شہید ہو گئے تب بھی دشمنی میں ذرہ برابر فرق نہ آیا، جنازے پر کبھی تیر برسے، کبھی گھوڑے دوڑاے گئے، کبھی بغداد کے پل پر رکھا گیا اور کبھی بام خانہ پر ڈال دیا گیا۔ اور اسی پر دشمنی ختم نہ ہوی کبھی قبر پر ہل چلواے گئے، کبھی نہر کاٹ کر لای گئی اور کبھی روضہ کو منہدم کیا گیا، یہی سبب ہے کہ شہادت کے بعد دیڑھ سو برس تک امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر مخفی رہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی یادگار بیٹی کی قبر آج بھی اسرار الہی میں شامل ہے، لیکن جنکے روضے عیاں تھے ان کو منہدم کیا گیا اور آج بھی جب موقع ملا تو انہیں ظالموں نے دو بار سامرہ کو منہدم کر دیا۔ اور یہ ظلم آل محمد علیھم السلام پر نہ ہوا بلکہ انکے چاہنے والے بھی اس مصیبت میں آپ کے شریک ہیں جیسے سیریا میں حضرت حجر بن عدی کا روضہ منہدم ہوا۔ کربلا پر بھی کئی بار حملہ ہوا، مشہد میں بھی غارت گری ہوی، سامرہ کو بھی ویران کیا گیا لیکن بعد میں دوبارہ تعمیر ہو گیا کہ نو تعمیر روضہ کی زیارت کر کے چاہنے والوں کو سکون مل گیا۔
لیکن افسوس صد افسوس ہزار افسوس، جتنا افسوس کیا جاے کم ہے بلکہ جتنا گریہ کیا جاے کم ہے کہ آج سے 97 برس پہلے جنت البقیع مدینہ منورہ میں چار معصوم اماموں کے روضے کے ساتھ بقیع میں مدفون تمام گنبد و بارگاہ منہدم کر دئیے گئے اور آج تک ویران ہیں۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ انہدام جنت البقیع کے بعد جب میں مدینہ گیا تو جنت البقیع کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے یہاں کوی زبردست زلزلہ آیا ہو، پورا مدینہ جگ مگا رہا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیاروں کی قبریں بے چراغ ہیں۔
سوچنے کی بات ہے اگر رات کی تاریکی میں کوی نجف یا مشہد ہوای جہاز سے جاے تو دیکھے گا کہ پورا شہر تاریک ہے لیکن ایک روشن و منور مقام ہے جس سے پتہ چل جاے گا کہ وہ روشن و منور مقام حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام یا حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا روضہ ہے لیکن اسی کے برخلاف اگر مدینہ پہنچے تو پورا شہر جگمگا رہا ہو گا اور ایک گوشہ تاریک ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیاروں کی قبریں ہیں کہ صلح و حلم ، کرامت و شرافت کو نور انہیں سے ملا، عبادات و مناجات کو روشنی انھوں نے ہی بخشی ، علم و صداقت کی تابانی انہیں سے ہے۔ لیکن خود انکے مزار کی ویرانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلمہ پڑھنے والوں کی غیرت پر سوالیہ نشان ہے کہ تم کیسے کلمہ گو ہو کلمہ سکھانے والوں کو بھول گئے؟ کیسے جنت کے خواہش مند ہو کہ جوانان جنت کے سردار ہی کو بھول بیٹھے؟ کیسے اللہ کی عبادت کرنے والے ہو زین العابدین (علیہ السلام) ہی کو فراموش کر دیا؟؟ تمہارا علم کیسا کہ اپنا معلم ہی یاد نہ رہا؟ تم کیسے سچے ہو صادق (علیہ السلام) ہی تمہیں یاد نہیں؟؟؟
کربلا، مشہد اور سامرہ پر حملہ ہوا لیکن وہ پردیس تھا لیکن مدینہ تو آل محمد علیھم السلام کا وطن ہے وطن ہی میں اہل وطن پر ظلم یہ کیسا ستم ہے؟؟
انہدام سے قبل جنت البقیع میں چار معصوم اماموں کی قبور مبارک پر گنبد و بارگاہ تعمیر تھے اور یہ چاروں قبریں ایک ہی ضریح میں تھیں۔ اسی طرح دیگر قبور پر بھی حسب حیثیت گنبد و بارگاہ تعمیر تھے اسی طرح بیت الحزن بھی تعمیر تھا جسے مسجد فاطمہ سلام اللہ علیھا کہتے تھے، یہاں خدام بھی تھے جو روضوں کی خدمت اور زائرین کی رہنمای کرتے تھے لیکن افسوس 8 شوال 1344 ھجری کو نجدی منحوس آل سعود نے سارے روضے منہدم کر دئیے اور 97 برس سے ویران ہیں۔ جب کہ یہ وہی جنت البقیع ہے جہاں بارہا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ حکم خدا سے تشریف لاتے اور اہل بقیع کو سلام کرتے، انکے لئے دعا فرماتے۔
ایسا نہیں ہے کہ انہدام کی خبر سن کر سب خاموش رہے بلکہ پورے عالم اسلام میں آل سعود کے خلاف احتجاجی جلسہ و جلوس ہوے، یہ احتجاج صرف شیعوں کی جانب سے نہیں تھا بلکہ اہل سنت بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔ خود ہمارے ملک میں جہاں ہمارے بزرگ علماء آل سعود کے خلاف تھے وہیں اہلسنت علماء بھی سراپا احتجاج تھے۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا۔
آل سعود برباد
چراغ دین محمدی روشن باد
آل سعود نے ہمارے معصوم اماموں کے روضے کو منھدم کر کے اپنے خیال میں سمجھے کہ ہم نے ان کا نام و نشان ختم کر دیا لیکن آج بھی چاہنے والوں کے دلوں میں یہ روضے موجود ہیں اور آج بھی اسی جوش و ولولے سے ہم احتجاج کرتے ہیں۔ اور آل سعود یاد رکھیں کہ ان بے حرمتی سے آل محمد علیھم السلام کی شان و شوکت اور عظمت و فضیلت میں نہ کوی فرق آیا اور نہ آے گا لیکن تم ذلیل ہو رہے ہو اور ہوتے رہو گے۔ تم تو ان بد قسمتوں میں سے ہو جو سمندروں سے منھ پھیر کر خشکی میں تشنگی سے سیرابی کی جستجو کر رہے ہو، سورج کو چھوڑ کر اجالے کے خواہاں ہو تم اللہ، رسول اور اہلبیت علیھم السلام کے بجاے عالمی استعمار اور اسلام و انسانیت دشمن امریکہ و اسرائیل سے مدد کے طلب گار ہو، تم نے مسلمانوں سے دشمنی کر کے یہود کی گود میں پناہ لی جنھوں نے تمہاری حیثیت بتا دی کہ تم فقط ایک دودھاری گاے ہو، تمہیں اللہ کے انبیاء اولیاء کا روضہ شرک لگتا ہے لیکن امریکہ کے سابق صدر کی قبر پر پھول ایسے چڑھا رہے ہو جیسے تمھیں ساری توحید وہیں ملتی ہے۔
پاسبان و مبلغہ کربلا حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے فرمایا تھا : اے یزید! خدا کی قسم نہ تم ہمارا ذکر ختم کر سکتے ہو اور نہ ہی مومنین کے قلوب سے ہماری محبت کم کر سکتے ہو۔
اے اس دور کے یزیدیوں آل سعود خود دیکھ لو مظلوموں کے چاہنے والے آج بھی پوری دنیا میں ہیں جو تم پر لعنت کرتے ہیں اور تمہارا ماضی و حال پست و تاریک ہے اور مستقبل بھی اندھیرا ہی ہے۔
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔